۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
سمینار مجازی نقش شیعیان در استقلال و ثبات پاکستان

حوزہ/جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ پاکستان کے زیراہتمام قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی ؒ کی 32 ویں برسی اور 14 اگست یوم آزادی پاکستان کی مناسبت سے "پاکستان کے قیام و استحکام میں تشیع کا کردار" کے عنوان سے ایک عظیم الشان آن لائن سیمنیار منعقد کیا گیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ پاکستان کے زیراہتمام  قائد شہید ااعلامہ عارف حسین الحسینی ؒ کی 32 ویں برسی اور 14 اگست یوم آزادی پاکستان کی مناسبت سے "پاکستان کے قیام و استحکام میں تشیع کا کردار" کے عنوان سے ایک عظیم الشان آن لائن سیمنیار منعقد کیا گیا۔ اس سیمینار کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام مجید سے ہوا جس کی سعادت قاری پاکستان قاری وجاہت حسین نے حاصل کی۔ تلاوت کے بعد ڈاکٹر ندیم عباس نے اس سیمینار کا تعارف کرایا، جس کے ساتھ ہی خطابات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ سیمینار سے ملک کے معروف علمائے کرام اور دانشوروں نے خطاب کیا۔

معروف محقق، کئی کتب کے مصنف اور پاکستان کی شیعہ تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے سید نثار حسین ترمذی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے جن دو شخصیات نے دو قومی نظریئے کو پیش کیا، وہ شیعہ تھیں۔ پہلی شخصیت مولانا محمد حسین آزاد کے والد مولوی محمد باقر کی تھی، جو ہندوستان کے پہلے مسلمان صحافی بھی ہیں۔ انہوں نے اس کو بیان کیا، جنہیں انگریزوں نے اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی میں بھرپور شرکت کی وجہ سے توپ سے اڑا دیا تھا۔ دوسری شخصیت جسٹس امیر علی کی ہے، جنہوں نے کانگرس سے بھی بہت پہلے نیشنل  محمڈن آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی تھی۔ جب کرپس مشن نے کہا کہ ہمیں آپ اپنا دو قومی نظریہ تو سمجھائیں اس پر قائداعظم نے ابن حسن جعفری کو بھیجا تھا۔ خود قائد اعظم شیعہ تھے، قرارداد مقاصد میں مفتی جعفر صاحب اور حافظ کفایت حسین نے اہم کردار ادا کیا۔ قائد شہید عظیم شخصیت تھے، وہ یہ بات بار بار کہا کرتے تھے کہ ہماری تین حیثیتیں ہیں، شیعہ، پاکستانی اور مسلمان ان تینوں کی ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہے۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ شعبہ ثقافت و تربیت کے سربراہ مولانا سید خاور عباس تقوی نے کہا کہ قائد شہید کی بات دلوں پر اثر کرتی تھی، کیونکہ ان کی بات دل سے نکلتی تھی۔ وہ عالمی شخصیت تھے۔ امام خمینیؒ شہید کے افکار کو زندہ رکھنے کی نصیحت کرتے ہیں۔ قائد شہید ایک مستحکم اور خود مختار اسلامی پاکستان دیکھنا چاہتے تھے، جس میں امن، فلاح اور ترقی ہو۔ اس کے اصول بیان کیے ہیں، جن سے یہ کامیاب ریاست حاصل ہوگی۔ اسلامی تشخص جس کی بنیاد قرآن و سنت ہو، مکمل آزاد وطن جس پر عوام کے حقیقی نمائندوں کی حکومت ہو، جن کے دلوں میں عوام کی ہمدردی ہو، استکبار اور استعمار کی ہمارے معاملات میں مداخلت کو روکنا ہوگا، امن ایسا امن جو انفرادی اور اجتماعی طور پر پورے معاشرے کو میسر ہو۔ ہماری لڑائی کا فائدہ دشمن اٹھانا جاہتا ہے، اسی لیے وہ احترام کا درس دیتے ہیں، قائد شہید ظالم کی مخالفت کو اسلامی پاکستان کی بنیاد گردانتے ہیں۔

اسلامی تحقیقاتی ادارے البصیرہ کے سربراہ اور ملی یکجہتی کونسل کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری جناب ثاقب اکبر نے کہا کہ اگست کا مہینہ اہم مناسبتوں کا مہینہ ہے، جس میں بین الاقوامی استعمار اور برہمن استعمار سے آزادی ملی۔ قائداعظم کی قیادت میں شیعہ سنی نے مل کر جدو جہد کی، تعمیر کے لیے مل کر جدوجہد کریں گے تو منزل ملے گی۔ قائد شہید نے آزاد خارجہ پالیسی کی بات کی کہ پاکستان کے فیصلے پاکستان میں ہوں۔ کشمیر کی آزادی  کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار تھے، صیہونیوں کو فلسطین میں غاصب سمجھتے تھے۔ شیعہ سنی وحدت کے قائل تھے۔ باتقویٰ قیادت کی بات کی، وہی مسائل کا حل ہے۔ پاکستان کے استحکام کے لیے خدا پرست قیادت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر طرح کی قربانی دیں گے اور پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنائیں گے۔

مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا مختار احمد امامی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بہت سی شیعہ شخصیات نے قیام پاکستان کی جدوجہد میں بنیادی کردار ادا کیا، ان میں راجہ صاحب محمود آباد نے سرمایہ دیا، ابواصفہانی نے ڈان اخبار بنایا، جو آج بھی جاری ہے، احمد اصفہانی نے بنکنگ کے شعبہ میں کام کیا۔پ اکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کے خوبصورت کے نعرے کے ساتھ ملک بن گیا۔ پاکستان کی تعمیر کے لیے پاکستان کے ہر ادارے اور ہر علاقے مین ملت تشیع نے زحمتیں اور کوششیں کیں۔ آمریت کے دور میں فرقہ واریت کی بنیاد رکھی گئی، جس کے نتیجے میں ملت جعفریہ کا قتل عام ہوا۔

جامعۃ المصطفی العالمیہ اسلام آباد مدرسہ کے سربراہ حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا انیس الحسنین خان نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا، قائد شہید اور جشن آزدی کی مناسبت سے اس سیمینار کا عنوان "قیام اور استحکام پاکستان میں تشیع کا کردار" رکھا۔ تشیع کے علماء اور ذمہ دار قیادت نے قانون کی پاسداری کی ہے۔ شیعہ سنی علماء نے قرارداد  پاکسان کے بعد اس شخص کے پیچھے کاوشیں کیں جو شیعہ تھا۔ شیعہ علماء اور قیادت نے تحریک پاکستان میں بھرپور کردار ادا کیا۔ مالی ضرورت کے لیے شیعہ اہل خیر نے بنیادی کردار ادا کیا، جہاں جس چیز کی ضرورت پڑی دل کھول کر مدد کی۔ جب اسلام کے نام پر بننے والی پہلی ریاست کو مشکلات پیش آئیں تو اس کے استحکام کے لیے ملت تشیع نے بنیادی کردار ادا کیا۔ کبھی قانون کو ہاتھ مین نہیں لیں گے، قائد شہید نے مینار پاکستان پر شیعہ حقوق کے حصول اور تحفظ کے لیے سیاسی جدوجہد کا اعلان کیا۔ ہماری دعا ہے کہ پاکستان مضبوط ہو اور اس کے افق پر سبر ہلالی پرچم لہراتا رہے۔

منہاج الحسینؑ کے سربراہ علامہ ڈاکٹر محمد حسین اکبر نے کہا کہ قائد شہید کی برسی کی مناسبت سے اس سیمینار کا منعقد ہونا احسن اقدام ہے۔ پاکستان اللہ کی نعمت ہے، جو اللہ نے برصغیر کے مسلمانوں کو عطا فرمائی۔ اس کے قیام میں بنیاد ی کردار شیعہ مسلمانوں کا ہے۔ قائد اعظم کے ساتھ مادر ملت نے بھی اہم کردار ادا کیا، بھائی کے ساتھ مل کر دن رات محنت کی۔ مفتی جعفر حسین صاحب، مفتی کفایت حسین صاحب اور بہت سے علماء اور قد آوار شخصیات نے تحریک پاکستان کا ساتھ دیا۔ راجہ غضنفر علی خان نے اپنا تن من دھن لگا دیا۔ مہاجرین کے لیے شیعہ  زمینداروں نے اپنے دروازے کھول دیئے۔ فرقہ واریت کے خلاف شیعہ علماء نے اتحاد و وحدت کی دعوت دی۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی قانون سازی میں بنیادی کردار ادا کیا۔

امت واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی صاحب نے خظاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان پہلا ملک ہے، جس کے نام کے ساتھ اسلامی اور جمہوریہ دونوں لگے۔ اسلام محور اکثریت ہے، جہاں اٹھانوے فیصد مسلمان ہیں، جن کے فرقے مختلف ہیں مگر اسلام پر متفق ہیں۔ اس خطے کی واضح  اکثریت نے ایک شیعہ کی قیادت میں اتنی بڑی تبدیلی لائی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انگریز نے فرقہ واریت کی جو کوشش کی، وہ ناکام ہوئی۔ کچھ مولویوں نے مخالفت میں کافرستان اور کافر اعظم کہا، مگر یہ اقلیت تھی۔ علماء، مشائخ، مدارس اور عوام نے پاکستان کی حمایت کی۔ شیعہ نوابین نے اپنی حکومتوں کی قیمت پر پاکستان کی حمایت کی۔ قائداعظم اور فاطمہ جناح نے باقاعدہ شیعہ ہونے کا اعلان کیا تھا۔ تکفیریوں اور انگریزوں کی سازش کے باوجود کامیاب ہوئے۔ پاکستان شیعہ سنی کی مشترکہ کاوش کا نتیجہ ہے۔ پاکستان کی بقا کے لیے ان دو قوتوں کو ان کی مخالفت کرنا ہوگی، جو مذہب، مسلک، قومی، لسانی اور جغرافیائی تقسیم کرتے ہیں، پاکستانیت اور اسلامیت کو فروغ دینا ہوگا۔ تکفیریوں نے ہمیشہ لڑانے کی کوشش کی اور یہ سلسلہ جاری ہے اور یہ اقلیت ہیں اور اس کے مدمقابل اکثریت کا سمندر ہے۔ شیعہ شیعہ رہے، سنی سنی رہے ، اہلحدیث اہلحدیث رہے اور بریلوی بریلوی رہے، مگر ناصبیوں اور امریکی ایجنٹوں کو اپنی محفل میں نہ گھسنے دیں۔ ہم مسلمان اور پاکستانی بن کر ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیں، جو فرقہ واریت پھیلاتا ہے، وہ اسلام اور پاکستان کا دشمن ہے۔ باوقار، سربلند، باعزت اور خود مختار ملک بنانا ہے۔

مخزن المدارس پاکستان کے سراہ علامہ سید محمد تقی نقوی نے کہا کہ شیعہ علماء نے حصول پاکستان اور تشکیل پاکستان میں اہم کردار کیا۔ قائد مرحوم سید محمد دہلوی نے قوم میں بیداری پیدا کی اور پاکستان کے ارتقاء اور بقاء کے لیے جدوجہد کی۔ پاکستان کی بنیاد ہی دین حق ہے اور اس کی ترقی، بقا اور ارتقاء اسلام پر موقوف ہے۔ اسلام کی وجہ سے ہی دو الگ مملکتیں وجود میں آئیں اور دین حق کے لیے نیا ملک چنا گیا۔ پاکستان اسلام کی بنیاد پر بنایا تھا، اسلام امن کا مذہب ہے۔ علامہ سید محمد دہلوی، مفتی جعفر حسین مرحوم، قائد شہید اور آج بھی یہی پالیسی جاری رہی کہ اپنے حقوق کو نہیں چھوڑیں گے۔ کوئی کسی مسلک کے حقوق کو سلب نہ کرے اور ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد، محبت اور امن کے ساتھ زندگی گزارے، ہماری قیادت کا یہی مشن رہا ہے اور آج تک قائد ملت علامہ سید ساجد علی نقوی نے جاری رکھا کہ ہم پاکستان کی سالمیت کو اولیت دیتے ہیں۔

تشیع امن کا داعی ہے، اپنے حقوق سلب کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور نہ ہی دوسرے کے حقوق کو سلب کرتا ہے۔ ہمارے ائمہ کی پوری زندگی اسی کی تعلیم دیتی ہے، ہمیشہ امن کا پیغام دیا، مظلوم ہوئے ہیں، ظالم کسی صورت میں نہیں بنے۔ تشیع امن سلامتی سے عبارت ہے۔ جلوس، مجالس اور ماتم کسی کے لیے خطرہ نہیں بنے، لمبے روٹ ہوتے ہیں، مگر شیشہ تک نہیں ٹوٹنا۔ وہ اپنے مشن میں غرق ہوتے ہیں اور اپنا پیغام پہنچا رہے ہوتے ہیں، ہم کسی کے حقوق کی حق تلفی نہیں کرتے۔ پروگرام کو دنیا بھر سے سیکڑوں لوگوں نے لائیو دیکھا، اس پروگرام کے میزبان ڈاکٹر ندیم عباس تھے، انہوں نے پروگرام کے آخر میں تمام مہمانان گرامی کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اپنا قیمتی وقت دیا اور ناظرین کا بھی شکریہ ادا کیا کہ وہ اس اہم پروگرام میں شریک ہوئے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .